Saturday 21 March 2015

سردار سچاد خان المعروف کمانڈر سجاد افغانی

سردار سچاد خان المعروف کمانڈر سجاد افغانی۔
کوٹ بلوال جیل میں قید ایک ایسا آزادی پسند بھی تھا جس نے جیل کے اندر قید آزادی پسندوں میں ایسا حوصلہ اور جذبہ بیدار کر دیا تھا کہ ہندوستانی اخبارات یہ تک لکھنے پر مجبور ہو گے کہ یہ جیل نہیں منی کشمیر بنا دیا گیا ہے۔ جہاں پولیس کے بجائے آزادی پیسند قیدیوں کی زیادہ چلتی ہے۔ یہ بہادر شخص آزاد کشمیر راولاکوٹ "بھہکھ " سے تعلق رکھنے والا ایک نوجوان سردار سجاد تھا جو کمانڈر سجاد افغانی کے نام سے مشہور تھا۔ مولانا محسود اظہر کے انہتائی قریبی رفقاء میں شمار ہوتا تھا۔ دونوں ایک ہی جیل میں قید رہے۔ اور غیر انسانی تشدد برداشت کرتے رہے۔ مولانا فرماتے ہیں کے سجاد ایسا بے جگر مجاہد تھا کہ جس کے سامنے لغت میں موجود تمام لفظ جو شجات اور حب الوطنی کو بیان کرتے ہیں اگر سرنگوں بھی ہو جائیں تو اس کی بہادری ، شجات اور وطن سے محبت کا ایک فیصد بھی بیان نہیں کرسکتے۔ کہتے ہیں کہ جیل میں ایک نئے افسر کاٹوچ کی تعیناتی کی گئی اس نے تمام مجایدین کو بغرض گنتی ایک لائین بناکہ کھڑا ہونے کہ لیے کہا کمانڈر سجاد اندر وضو کرتے ہوئے اس کی باتیں سن رہے تھے جب باہر نکلے تو ونہی دروازے سے ہو کر کاٹوچ کو للکار کر کہا کہ اگر ہم نے لائین میں کھڑا ہونا ہوتا تو باہر ہی کھڑے رہتے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت نا تھی کمانڈر کی آواز سن کر آزادی پسندوں کے جسموں میں بجلیاں سی کود گئی اور جیل نعرہ تکبیر کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔ اسی سرکشی کے سبب کمانڈر کو آئے زور تشدد کا نشانہ بنایا جاتا اور پھر ایک روز سب کے سامنے جیل میں ڈنڈے مار مار کر شہید کر دیا گیا۔ تاریخ میں ایسے بدترین تشدد کی مثال نہیں ملتی مگر مولانا فرماتے ہیں کہ اس غیر انسانی تشدد کے باوجود سجاد کے منہ سے کسی قسم کی التجاء نا سنی یہاں تک کہ ڈنڈوں کے پے درپے وار سے بے ہوش ہو گیا جہاں سے اسے ہسپتال منتقل کر دیا گیا مگر سانسیں بحال نا ہو سکی۔ مولانا محسود اظہر کو کمانڈر کا آخری دیدار کروایا گیا فرماتے ہیں کہ جہرہ پر چوٹوں کی وجہ سے نیل پڑ جانے کے باوجود ایک عجیب سا پرنور چہرہ ایک مسکراہٹ سجائے ہوئےتھا۔ آپ کی شہادت کے بعد آپ کو وہی ایک مقامی قبرستان میں دفن کر دیا گیا۔ سجاد افغانی آزادیِ کشمیر کی تمنا دل میں لیے مضبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے اور عملی جد و جہد کی اور اپنی بساط اور نظریہ کے مطابق اپنا حصہ ڈال کر رخصت ہوئے۔ ان کی بہادری و شجات کے قصے سننے ہوں تو مولانا محسود اظہر کے بیان سن لیں۔ وہ واقعی میں ایک سچے کشمیری تھے مولانا محسود اظہر کا تو کشمیر سے کوئی تعلق نہیں اور وہ پاکستانی ایماء پر ایک پراکسی وار کا حصہ ہیں جو حب کشمیر میں ہر گز نہیں لڑی جا رہی مگر کمانڈر سجاد افغانی کی نیت، بہادری اور شہادت سے انکار ممکن نہیں۔ وہ ایک کشمیری تھے اور حب کشمیر اور آزادی کشمیر کے لیے اپنی سوچ کے مطابق سینہ سپر تھے۔ اللہ ان کی شہادت قبول فرمائے۔ اور وہ دن جس کے خواب سجاد افغانی سمیت لاکھوں کشمیریوں نے دیکھے ہیں وہ دن اہل کشمیر کو نصیب ہوں۔ امین

No comments:

Post a Comment