Sunday 15 March 2015

کپٹین خان محمد خان Captain Khan Muhammad Khan.


کپٹین خان محمد خان المعروف خان آف منگ دھرتی کے وہ ثپوت ہیں کے جن پر جتنا رشک کیا جائے کم ہے۔ جس محاذ کا رخ کیا سر خرو ٹھہرے۔ جنگِ آزادیِ کشمیر 1947ء میں آپ کو میر پور محاذ پر تعینات کیا گیا۔ جہاں ڈوگرہ فوج سے مقامی لوگ نبرد آزما تھے۔ آپ نے تمام لوگوں کو منظم کیا اور ڈوگرہ فوج کو پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ آپ کی بہادری اور جان فروشی کو دیکھ کر لوگوں میں ایک نئے جذبے نے انگڑائی لی اور وہ جذبہ شہادت سے چور جان ہتھیلی پر لیے اپ کی کمانڈ میں ڈوگرہ فوج سے ایسے دیوانہ وار ٹکرائے کے اسے عبرت ناک شکست سے دوچار کرتے ہوئے میرپور کو فتح کر لیا اور اسی نسبت سے خان آپ منگ کو فاتح میر پور کے لقب سے نوازا گیا۔ 
تاہم جنگِ آزادیِ کشمیر کے بعد کے حالات سے خان صاحب خوش نہیں تھے مہاراجہ/کشمیری عوام سے مائده قائمہ کے تحت ہی ایک آزاد ریاست کے قیام کا وعدہ ہوا تھا جبکہ تحریکِ آزادی کشمیر کے بعد آزاد کشمیر میں اس کے برعکس پاکستان نے کشمیریوں کو مزید غلامی میں دھکیل دیا تھا۔ اور اسی وجہ سے 1952ء میں بھی سدھن مسلم وار کے نام سے ایک بغاوت بھی ہو چکی تھی جسے پاکستان نے افواجِ پاکستان کی مدد سے دبا دیا تھا (اس جنگ کی تفصیل آیندہ کسی پوسٹ میں اپلوڈ کی جائے گی )۔ جپ ایوب خان صدرِ پاکستان بنے تو خان صاحب اس کی دعوت پر اسے ملنے پاکستان تشریف لے گئے۔ وہاں کشمیر کے ایشو پر بات چیت ہوئی تو صدر پاکستان نے کوئی تسلی بخش جواب دینے کے آپ کو اپنی کابینہ میں شمولیت کی دعوت دی محصوص عسکری تربیت کی وجہ سے خان صاحب کو اس کی یہ پشکش پسند نہ آئی شدید غصے میں ایوب خان کی دعوت یہ کہہ کر مسترد کر دی کے تم قائدِ عظم کی سیٹ پر بیٹھنے کے حق دار نہیں۔ لہذا اپنی کرسی میرےلیے خالی کرتے ہوئے خود میری کابینہ میں شامل ہو جاو۔ تلخی بڑتی رہی اور جب کوئی حل نکلتا محسوس نہ ہوا تو خان صاحب نے ایوب خان پر واضع کر دیا کے ان حالات میں آزاد کشمیر کے لوگ پاکستان کے ساتھ نہیں رہے سکتے اور وہ واپسی پر پاکستان کے خلاف نہ صرف بغاوت کروئیں گئے بلکہ خود قیادت کریں. اس پر ایوب خان نے آپ کو ہری پور جیل میں پابندِ سلاسل کر دیا۔ 
خان صاحب آزادکشمیر کی حکومت اور حکمرانوں سے سخت خائف تھے ان کا موقف تھا کہ ہم نے ایسی بدترین غلامی کے لیے اپنی جانیں قربان نہیں کی تھی کے جس میں ہم اپنے نمائندے بھی خود نہ چن سکتے ہوں اور پاکستانی حکومت اپنی مرضی سے جب چائے جسے چائے تخت پر بیٹھا دے یا گرا دے۔ وُہ ایک آزاد ریاست کے حامی تھے جس میں پاکستان کا کردار ثانوی نویت کا ہوتا


No comments:

Post a Comment